اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کی ہولناک پامالیوں اور شہریوں پر ڈھائے جانے والے ممکنہ مظالم پر جواب طلبی ہونی چاہیے۔
ہائی کمشنر نے غزہ کی جنگ کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں انہوں نے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملوں اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی عسکری کارروائی کے باعث دونوں جانب شہریوں کو پیش آنے والے خوفناک حالات کا تذکرہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ خاص طور پر نومبر 2023 اور اپریل 2024 کے درمیانی عرصہ (6 ماہ) کے حالات کا احاطہ کرتی ہے جس میں شہریوں کی ہلاکتوں اور بین الاقوامی قانون کی پامالی سے متعلق تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
ایسے متعدد واقعات جنگی جرائم کے مترادف ہو سکے ہیں۔
اسرائیل کی ذمہ داری
رپورٹ کے مطابق، اگر حقوق کی پامالیاں ریاستی یا ادارہ جاتی پالیسی کے تحت شہری آبادی کے خلاف وسیع اور منظم حملوں کے دوران ہوئی ہیں تو یہ انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو گا۔ مزید برآں، اگر ان کارروائیوں کا مقصد کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو کلی یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے تو یہ نسل کشی کہلائے گا۔
ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے متعدد احکامات یا عبوری اقدامات میں توثیق کی ہے کہ شہریوں کو نسل کشی اور اس جیسے دیگر اقدامات کے خلاف تحفظ دینا اور ان کے ذمہ داروں کی سزا یقینی بنانا اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی ان ذمہ داریوں کی مکمل اور فوری طور سے تعمیل کرے۔
رپورٹ میں بیان کردہ حالات، شمالی غزہ میں اس کے حالیہ حملوں اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے خلاف اس کی حالیہ قانون سازی کے تناظر میں یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔
ظالمانہ جرائم روکنے کا مطالبہ
ہائی کمشنر نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں میں بھی بین الاقوامی قانون کی وسیع پیمانے پر اور سنگین پامالیوں کا ارتکاب کیا گیا۔
ایسے الزامات کی قابل اعتماد اور غیرجانبدار عدالتی اداروں کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس حوالے سے تمام متعلقہ معلومات اور شہادتیں ناصرف جمع کی جائیں بلکہ ان کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ طالمانہ جرائم کا ارتکاب روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور غزہ کی جنگ کے تناظر میں ‘آئی سی جے’ سمیت احتساب کے عمل میں شامل اداروں کو مدد دے۔
رپورٹ میں اسرائیلی حکام کے ایسے بیانات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جن میں انہوں نے جنگ کے خاتمے کو غزہ کی مکمل تباہی اور علاقے سے فلسطینی لوگوں کی بیدخلی سے مشروط کیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک، حملوں اور تشدد اور انتہاپسندانہ اقدامات کا جواز پیش کیے جانے کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
© UNRWA
گنجان آبادی پر مہلک حملے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے مکمل محاصرے، بمباری اور زمینی حملوں سے شہریوں کا بھاری نقصان ہو رہا ہے۔
اسرائیل نے انسانی امداد کی ضرورت مند لوگوں تک رسائی روک رکھی ہے جو کہ غیرقانونی ہے۔ شہری تنصیبات کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا جا رہا ہے اور علاقے کی تقریباً تمام آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔ اسرائیل کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں لوگوں کو بھوک، بیماریوں اور وباؤں کا سامنا ہے جبکہ ان کی بہت بڑی تعداد ہلاک و زخمی ہو چکی ہے۔
جنگی قوانین 160 سال سے موجود ہیں اور ان کا مقصد مسلح تنازعات کے دوران شہریوں کے نقصان کو روکنا ہے۔
تاہم غزہ کے تنازع میں ان قوانین کی کھلی پامالی کی گئی ہے۔ اب تک کے جائزے کی رو سے غزہ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں تقریباً 70 فیصد تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ میں طاقت کے متناسب استعمال، اہداف میں تمیز اور احتیاط کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں ہونے والی مصدقہ ہلاکتوں میں سے 80 فیصد رہائشی عمارتوں میں ہوئیں جن میں 44 فیصد بچے اور 26 فیصد خواتین شامل ہیں۔
گنجان آبادیوں میں مہلک اسلحے کا استعمال بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا ایک بڑا سبب ہے۔
© UNRWA
عالمی برادری سے اپیل
وولکر ترک نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داری کا پاس کرتے ہوئے ‘جنگی فریق’ کو ایسے اسلحے یا مالی وسائل کی فراہمی یا منتقلی کا ازسرنو جائزہ لیں جس سے شہریوں کو خطرات لاحق ہونے کا خدشہ ہو۔
رپورٹ میں غزہ کے لوگوں کی جبری نقل مکانی، ہسپتالوں پر حملوں، صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے اور سفید فاسفورس کے استعمال پر بھی سنگین تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
ہائی کمشنر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں انسانی حقوق کی یہ پامالیاں اب بھی جاری ہیں جنہیں فوری ختم ہونا چاہیے، تمام یرغمالیوں اور ناجائز طور پر گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔