لاہور میں فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو بھی پار کرگئی‘ ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے تجاوزکر گیا

02 نومبر۔2024 ) لاہور میں فضائی آلودگی انتہائی حد کو بھی عبور کرگئی، ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) ایک ہزار سے بھی بڑھ گیا جب کہ آئندہ 48 گھنٹے اسموگ کی شدت برقرار رہے گی ترجمان محکمہ موحولیات کے مطابق بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے سے اٹھنے والا شدید دھواں پاکستان میں داخل ہوچکا ہے اور بھارت سے آنے والی تیز ہواﺅں نے لاہور میں فضائی آلودگی انڈیکس ایک ہزار تک پہنچا دیا.

ماہرین نے ایئرکوالٹی انڈکس 1000سے تجاوزکرنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیئے گئے تو شاید لاہور انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہے انہوں نے کہاکہ حکومتوں کو سچ بتانے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اگر لاہور میں ایئرکوالٹی انڈکس ایک ہزار کے قریب پہنچا ہے تو لاہور کے قریب ترین بھارتی سرحدی شہر امرتسرمیں بھی اس کے اثرات نظرآنا چاہیں امرتسرشہر میں ایئرکوالٹی انڈکس ڈیڑھ سے دو سو کے قریب ریکارڈ کیا گیا ہے.
انہوں نے کہا کہ لاہور کا اصل مسلہ بے ہنگم ٹریفک‘گرین ایریازکی کمی‘درختوں کا بے دریغ کٹاﺅ اور شہر کے گرد ونواح کی دیہی آبادیوں کا خاتمہ ہے انیس سو نوے کی دہائی کے بعد سے شہر کو بے کسی منصوبہ بندی کے اندھا دھند پھیلایا گیا جس کے نتیجے میں شہر کے قریبی دیہات اور زرعی زمینیں ختم ہوتی چلی گئیں اور کنکریٹ کے جنگل میں تیزی سے اضافہ ہوا ‘چھوٹے شہروں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے تیس سال کے دوران لاہور سمیت بڑے شہروں کی جانب انتہائی برق رفتاری سے ہجرت ہوئی اربنائزیشن کے اس رجحان کے خاتمے کے لیے حکومتوں کی جانب سے آج تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیئے گئے.
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اربنائزیشن کو روکنے کے اقدامات کرلیے جاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی مگر بدقسمتی سے زرعی زمینیوں کو پیسہ کمانے کے لیے رہائشی کالونیوں میں بدلنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے جس کی مثال راوی کے کناروں پر دیہاتوں اور زرعی اراضی کو ختم کرکے وہا ں شہر ی آبادیاں قائم کرنے کا منصوبہ ہے اسی طرح فیروزپور روڈ پر ایل ڈی اے سٹی کے نام سے رہائشی سکیم بنائی جارہی ہے جس کی زدمیں پانچ ہزار سے زیادہ دیہات اور لاکھوں ایکٹرزرعی اراضی آرہی ہے .
انہوں نے کہا کہ اب دنیا بھر میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ ٹریفک فضائی آلودگی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے اگر صوبائی حکومت وجوہات جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے تو کسی ایک ورکنگ دن میں شہر کے اندر50فیصد ٹریفک کو بند کرکے ایئرکوالٹی کو چیک کرلیا جائے ‘ماہرین نے ایک بار پھر زور دیا کہ اگر حکومت ایئرکوالٹی بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو شہر میں ہر طرح کی نئی تعمیرات پر کچھ سالوں کے لیے پابندی عائدکردی جائے ‘زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے پر مستقل پابندی کے لیے قانون سازی کی جائے‘مقامی درختوں کو فروغ دیا جائے ‘خالی پڑی جگہوں پر ہنگامی بنیادوں پر شجرکاری کی جائے ‘آبادیوں میں خالی پلاٹوں اورزمین کے ٹکڑوں پر درخت لگائے جائیں ‘شہر میں ٹریفک کو کم کرنے کے لیے ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ کا مربوط نظام قائم کیا جائے‘پنجاب ریونیو کے لینڈ ریکارڈ کے مطابق شہر میں لاکھوں ایکٹرایسی زمینیں موجود ہیں جو کالونیل دور میں مختلف مقاصد کے لیے الاٹ کی گئیں تھیں ان کی الاٹمنٹ کی شرائط کے مطابق ان زمینوں کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا‘الاٹمنٹ کے معاہدوں کے تحت اگر زمینوں کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا تو الاٹمنٹ منسوخ تصور کی جائے گی.
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے ان زمینوں کے قابضین معاہدے کی خلاف ورزی کررہے ہیں جبکہ صوبے میں آج تک لینڈ ایکوزیشن ایکٹ1894رائج ہے لہذا حکومت چاہے تو ان زمینوں کی الاٹمنٹ کو منسوخ کرکے انہیں فارم لینڈ میں تبدیل کرسکتی ہے‘انہوں نے کہاکہ شہر کے اندر اور گرد ونواح میں جتنی توانائیاں اور وسائل شاہراﺅں اور میگا پراجیکٹس کی تعمیرپر لگائے جاتے ہیں اگلے پانچ سال کے لیے یہ وسائل اور توانائیاں شہر کے گرد ونواح میں دیہی اور زرعی علاقوں کی بحالی کے لیے خرچ کیئے جائیں انہوں نے زوردیا کہ ایل ڈی اے سٹی اور راوی کے کناروں پر شہری آبادیاں قائم کرنے کے منصوبو ں کو فوری طور پر ختم کرکے دیہی اور زرعی علاقوں کو بحال کیا جائے.
ادھر لاہور ا ایک بار پھر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا ہے اور آج صبح 9 بجے تک ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار 67 تک پہنچ گیا تھا جب کہ صبح 11 بجے تک اے کیو آئی 700 تک آگیا تھا لیکن لاہور فضائی آلودگی میں بدستور دنیا میں سرفہرست ہے. ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے اکتوبر میں 1344 گاڑیاں تھانوں میں بند کی گئیں جب کہ 2 ہزار 357 مقدمات درج کرکے ایک کروڑ روپے کے جرمانے عائد کئے گئے اسموگ انسانوں، جانوروں، درختوں سمیت فطرت کے لیے نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے.