بلاول بھٹو ’وعدہ خلافیوں‘ پر ناراض، حکومتی اتحاد خطرے میں؟

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بعض معاملات پر حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے اتحاد پر دوبارہ غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ حکومت اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت کے سربراہ کی جانب سے اس نوعیت کے بیانا ت پر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا کہ ایک ایسے وقت میں جب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے احتجاج کی کال دے رکھی ہے، بلاول بھٹو اس موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن پر دباؤ بڑھا کر اپنی سیاسی اہمیت جتا رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے اور صوبائی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔

انہوں نے یہ بھی اعتراض کیا کہ حکومت قانون سازی کے وقت طے کی گئی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے، ان سے پوچھے بغیر دریائے سندھ پر مزید نہروں کےقیام کی منظوری دے دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اہم قومی امور پر قانون سازی سے پہلے مشورہ کرنے کی بجائے عین وقت پر قانون سازی کے مسودے کی نقل تھما دی جاتی ہے۔
انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اگر وفاقی حکومت نے موجودہ صورت حال کی اصلاح کے لیے اقدامات نہ کیے تو ان کی پارٹی حکومت کے ساتھ اپنے اتحاد پر دوبارہ غور کر سکتی ہے۔

‘اتحاد بنانے والوں کی مرضی کے بغیر نہیں ٹوٹ سکتا‘
سینئر سیاستدان اور مبصرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اس وقت حکومتی اتحاد میں شامل دونوں بڑی پارٹیاں اتحاد توڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں کیونکہ یہ ان دونوں کے مفاد میں نہیں۔

اس وقت اتحاد میں رخنہ ڈالنے کا فائدہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کو ہوگا اور دونوں جماعتیں ایسا ہرگز نہیں چاہتیں اور اگر چاہیں بھی تو اتحاد بنانے والوں کی مرضی کے بغیریہ نہں ٹوٹ سکتا۔
سینئر سیاستدان اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈی ڈبلیو سے بات کے دوران بلاول کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ” وہ محض دکھاوا کر رہے ہیں، وہ آزادانہ طور پر فیصلے نہیں کر سکتے۔

اس وقت تمام معاملات مکمل طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہیں اور یہ اتحاد انہی کا بنایا ہوا ہے، بلاول اسے کیسے توڑ سکتے ہیں؟‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”اسٹیبلشمنٹ اس نظام کو چلا رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ خوش ہے اور نہ تو کوئی نئے اتحاد توڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور نہ ہی نئے اتحاد بنانے کی اور اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا تو اتحادی جماعتوں کے درمیان اتحاد پر دوبارہ نظر ثانی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

‘‘
سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی مظہر عباس بھی شاہد خاقان عباسی کے اس تبصرے سے متفق ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ”اس وقت اتحاد ٹوٹا ہوا نظر نہیں آتا اگر اتحاد نہیں ہے تو حکومت بھی نہیں ہے۔ بلاول کا بیان اس حوالے سے ضرور اہمیت کا حامل ہے کہ اگر حکومت نے کوئی ایسے وعدے کر رکھے ہیں جو پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم ہیں تو حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

‘‘
مظہر عباس کے بقول دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے لیے کافی اہم ہے اور اس حوالے سے ان پر عوام کا کافی دباؤ بھی ہے اور شاید یہی بیان کی وجہ بھی بنا ہو گا۔

بلاول کیا چاہتے ہیں؟
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ بلاول کے ووٹرز یہ تاثر رکھتے ہیں کہ ان کے لیڈر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر ہیں اور بلاول اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”موجودہ وقت میں کسی بھی پارٹی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر ہونا سب سے بری چھاپ ہے اور ایسی جماعتوں کو مستقبل میں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔‘‘
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب بلاول حکومت کا حصہ ہیں تو اپنے اتحادیوں سے عوامی فورم پر نہیں بلکہ نجی طور پر بات کریں۔ انہوں نے کہا، ” پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار کا لطف اٹھائے ، کوئی ذمہ داری نہ لے اور خود کو صاف ستھرا بھی دکھائے۔

اگر اتنے ہی خوش نہیں ہیں تو علیحدہ ہو جائیں لیکن ایسا وہ کبھی نہیں چاہتے۔‘‘
پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال کا حوالہ دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا، ”عام طور پر ایسے مواقع پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت دباؤ کی حکمت عملی اپنارہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ دونوں جماعتیں اتحاد تورنے کی پوزیشن میں نہں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق جلد بلاول اور وزیر اعظم کی ملاقات ہو گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر بھی فی الحال اپنی جماعت کو حکومتی اتحاد سے باہر نکلتے نہیں دیکھ رہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”مجھے نہیں لگتا کہ اتحاد خطرے میں ہے۔ بلاول نے پہلے بھی مختلف معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اتحاد مخصوص سیاسی حالات میں بنتے ہیں اور موجودہ صورتحال اس کو توڑنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک حکومت کی جانب سے اتفاق رائے کے بغیر قانون سازی کا سوال ہے تو اس معاملے پر احسن طریقے دے بات چیت کی جا سکتی ہے۔