لاشوں کی سیاست؟ پولی کلینک سے بڑے انکشاف منظر عام پر۔پوسٹ مارٹم روکنے اصل کہانی

بی بی سی اردو کی رپورٹ میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ پولی کلینک ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق پولی کلینک ہسپتال کے ڈاکٹرز کے مطابق پولیس نے پی ٹی آئی کے جاں بحق کارکنان کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے سے روکا، میتیں ورثا کے حوالے کرنے سے بھی روکا گیا۔
تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے اسلام آباد احتجاج کیخلاف کیے جانے والے کریک ڈاون سے متعلق بی بی سی اردو کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق دوران تحقیقات پولی کلینک ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق وہاں 26 نومبر کی شام کم از کم ایسے 3 افراد کی لاشیں موجود تھیں جنہیں گولیاں لگی تھیں اور ان میں سے 2 کی ہلاکت بھی ہسپتال میں ہی ہوئی تھی۔

ہسپتال کے عملے کی جانب سے بتایا گیا کہ ایک لاش بدھ تک پولی کلینک کے مردہ خانے میں ہی موجود تھی جبکہ دو لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ دوران تحقیقات پولی کلینک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ پولیس حکام نے انہیں میتیں ورثا کے حوالے کرنے سے روکا ہے۔ جبکہ پولی کلینک کے ہی طبی عملے کے 2 اہلکاروں نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ انہیں پولیس نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے سے روکا تھا۔
پولی کلینک میں کم از کم تین ڈاکٹروں نے بتایا کہ 26 نومبر کی شام سے ہی درجنوں کارکنان ہسپتال لائے گئے جنہیں گولیاں لگی تھیں۔ ان 3 ڈاکٹرز کے مطابق ان کے پاس کم از کم 45 اور 55 کے درمیان ایسے شہری لائے گئے جنہیں گولیاں لگی تھیں۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق دوران تحقیقات پولی کلینک اور پمز ہسپتال کے ڈاکٹرز نے کارروائی کے خدشے کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پی ٹی آئی کیخلاف کیے گئے آپریشن کی رات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے آج تک ایک رات میں اتنی سرجریز نہیں کی ہیں، جتنی آپریشن کی رات کی گئیں۔
پولی کلینک میں ایک ڈاکٹر نے کہا کہ بعض زخمی اس قدر تشویشناک حالت میں آئے کہ انھیں انیستھیزیا دینے کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں سرجریز شروع کرنی پڑیں۔ بہت سے مریض ایسے تھے جن کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔ ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ ہمارے پاس رش اس قدر زیادہ تھا کہ ہم نے ایک بیڈ پر دو دو سرجریز کیں اور گولیاں نکالی گئیں۔ اس ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ جو میں نے رات کو یہاں دیکھا، وہ میں کبھی بھول نہیں سکوں گی۔
پولی کلینک کے متعدد ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ 26 نومبر کی شام سے ہی درجنوں کارکنان ہسپتال لائے گئے جنہیں گولیاں لگی تھیں۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو کہتے کہ ان کا نام کاٹ دیں اور کئی ایسے تھے جنہوں نے درخواست کی کہ ان کا نام ریکارڈ میں نہ ڈالا جائے۔ ڈاکٹرز کے مطابق ہسپتال لائے گئے زخمی یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا نام ریکارڈ کا حصہ بننے کی صورت میں انہیں حراست میں لیے جانے کا خوف تھا۔ دونوں ہسپتالوں کے طبی عملے نے بتایا کہ وہ معلومات دینے سے قاصر ہیں کیونکہ ان پر انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔