لاہور میں فضائی آلودگی کی خوفناک صورتحال، صوبائی دارالحکومت کا ائیر کوالٹی انڈیکس انتہائی تشویش ناک 3 ہزار کی سطح کے قریب پہنچ گیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید دھند اور سموگ کا راج برقرار ہے، جمعرات کے روز لاہور آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست رہا۔ لاہور سمیت پنجاب میں زہریلے دھویں کے گہرے سائے تاحال برقرار ہیں۔
بدترین فضائی آلودگی بدستور برقرار ہے، لاہور آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست رہا جہاں فضائی آلودگی کی سطح خوفناک سطح تک پہنچ گئی۔ جمعرات کے روز دن کے وقت لاہور میں مجموعی ائیرکوالٹی انڈیکس 2400 کی سطح سے اوپر چلا گیا، جبکہ کچھ علاقوں میں ائیرکوالٹی انڈیکس 3 ہزار کی سطح کے قریب پہنچ گیا۔
گلبرگ کے علاقے میں ائیرکوالٹی انڈیکس انتہائی تشویش ناک 2816 ریکارڈ کیا گیا۔
لاہور کے علاوہ ملتان میں 575، فیصل آباد 405، پشاور میں 285،اسلام آباد 186اور راولپنڈی میں راولپنڈی میں فضائی آلودگی 220پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ ہوئی۔ اس تمام صورتحال میں ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ اسموگ کو نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا جائے گا تاکہ ملک میں بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے وزیر اعظم و پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کے چیئرمین محمد شہباز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں اسموگ کے بحران پر قابو پانے کے لئے فوری اور طویل مدتی اقدامات کا خاکہ پیش کیا ہے۔
تنظیم نے آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا اور’گرین لاک ڈائون‘ کے ضوابط کو لاہور اور انتہائی آلودہ شہروں تک بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسموگ سیزن کے عروج کے دوران تعمیراتی سرگرمیوں کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا، جس میں اینٹوں کے بھٹوں کی بندش بھی شامل ہے۔انہوں نے متعلقہ حلقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ سڑکوں سے زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو فوری طور پر ہٹانے کے لئے ضروری احکامات جاری کریں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے سموگ کے مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوری، جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں۔ خراب ہوا کا معیار اور مسلسل سموگ نہ صرف عوام اور ماحولیات بلکہ معیشت کے لئے بھی سنگین مسائل کا سبب ہیں۔ انہوں نے سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت کی کوششوں کو سراہا لیکن اس بات پر زور دیا کہ سخت اقدامات پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہاکہ طویل المدت میں، الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے، پائیدار ترقی کے ماڈل کو بڑھانے، صنعتی زونز کو الگ کرنے، ماس ٹرانزٹ نیٹ ورک کو وسعت دینے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ طویل المدتی اقدامات کی تجویز پیش کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے یورو فائیو یا یورو6 فیول کوالٹی اسٹینڈرڈز کو اپنانے اور پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں بالخصوص دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کو اپنانے میں تیزی لانے کی تجویز دی تاکہ گاڑیوں کے اخراج میں نمایاں کمی لائی جا سکے۔
اس نے میٹروپولیٹن مراکز میں پبلک ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کی توسیع پر بھی زور دیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ گرین فنانسنگ کو بڑھائے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کے متبادل پر سبسڈی دے۔ کم لاگت ایئر کوالٹی سینسر پی ایم 1.0، پی ایم 2.5، این او 2، ایس او 2 اور او 3 جیسے آلودگی کی پیمائش کرتے ہیں اور ملک بھر میں آلودگی کے ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اسموگ پر قابو پانے کے اقدامات سے آگاہ کرنے کے لئے ہوا کے معیار کی نگرانی کے لئے ان سینسرز کے وسیع پیمانے پر استعمال کی سفارش کرتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صورتحال کی نزاکت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس سے لاکھوں پاکستانیوں کی صحت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور اس سے وابستہ ماحولیاتی ماہرین کی ٹیم صورتحال، اس کی وجوہات اور اس کے اثرات کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور اس سے قبل اس مسئلے کو اس کی موجودہ اور نازک حالت میں پہنچنے سے پہلے ہی حل کرنے کے لیے سفارشات کا ایک جامع مجموعہ شائع کر چکی ہے۔
موسم خزاں کے آغاز کے ساتھ ہی سموگ پاکستان کے شہریوں کے لیے ماحولیاتی اور صحت کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ آئی کیو ایئر فانڈیشن کے تعاون سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اس وقت ملک میں کم لاگت ایئر کوالٹی مانیٹرنگ ڈیوائسز کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلا رہا ہے جس میں 15 شہروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پنجاب کے متعدد شہروں میں ان ڈیوائسز نے بار بار اے کیو آئی کی سطح 1000 سے زیادہ بتائی ہے، جس میں ذرات باقاعدگی سے ڈبلیو ایچ او کی ہدایات سے 30-40 گنا زیادہ ہیں۔