سیاسی رہنماء محمد زبیرنے کہا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کا 24نومبر کا کوئی احتجاج ہوگا ،احتجاج مئوخر کرنے سے ورکرز میں مایوسی پھیلے گی، حکومت تو چاہے گی کہ احتجاج مئوخر ہوجائے، 26ویں ترمیم کے بعد پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو آفر کرنے کیلئے کچھ نہیں ، وہ چاہیں گے احتجاج کا وقت جتنا آگے جاسکتا چلا جائے۔
پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ کہ کیسز جلد چلائے جائیں اور لیڈرشپ کو رہا کیا جائے ، اس کیلئے بھی گارنٹی ہو تب کچھ ہوسکتا، لیکن 26ویں ترمیم کو واپس کرنا، فروری 2024 کے الیکشن میں انصاف ملنا ، یہ مطالبہ تو پورا نہیں ہونا۔
پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ یہ سب کچھ نہیں ہونا، احتجاج کی تاریخ آگے کرنے سے پی ٹی آئی سپورٹرزمیں ناامیدی پیدا ہوگی۔ پی ٹی آئی نے ایک چیز اپنے ورکرز کو سمجھا دی ہے کہ احتجاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔
حکومت بھی سمجھتی ہے کہ احتجاج کے علاوہ پی ٹی آئی کچھ نہیں کرسکتی ، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن یا عدالتوں میں نہیں جاسکتے۔ اب تو محسن نقوی نے ایک اور تھریٹ دیا کہ پاسپورٹ ، شناختی کارڈز اور تعلیمی اسناد منسوخ کردیں گے۔دوسری جانب اہلیہ بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی نے عوام کو 24 نومبر کے احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل بھی کی اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو عوام کو احتجاج کی کال دی ہے۔
جب تک بانی خود تاریخ بدلنے کا اعلان نہیں کرتے تب تک 24 نومبر کی تاریخ کسی صورت تبدیل نہیں ہوگی ۔ ہمارا احتجاج آئین قانون کے مطابق ہوگا، قانون کے مطابق احتجاج سے کسی کو نہیں روکا جاسکتا۔ مزید برآں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء علی محمد خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی یا علیمہ خان پارٹی کے انتظامی امور میں کوئی مداخلت نہیں کررہیں،بشریٰ بی بی اگراحتجاج کا حصہ بنتی ہیں تو ان کا حق ہے، علیمہ خان بانی کا پیغام دینے تک محدود ہیں، احتجاج کو مئوخر کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ صرف عمران خان ہی کریں گے۔
انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام مسائل کا حل آخر میں مذاکرات اور ٹیبل پرگفتگو سے نکالا جاتا ہے، جب میں آخری بار گرفتاری کے بعد رہا ہوکر باہر نکلا تو میڈیا سے ایک بات کی تھی کہ پاکستان کو سیاسی انتقام کی نہیں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ۔ پچھلے جمعے کو عمران خان سے بات کی تھی کہ اگر مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو کیا کیا جائے؟ تو عمران خان نے کہا کہ اگر بات ہوئی تو مجھ سے براہ راست ہوگی۔