نیا ریکارڈ: روس نے اکٹھے پچپن نئے سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیے

روسی دارالحکومت ماسکو سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق روس اور ایران متعدد شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم روسی ماہرین نے پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق نصف شب کے بعد دو بج کر 18 منٹ پر ایک راکٹ کے ذریعے بیک وقت جو 55 سیٹلائٹ زمین کے مدار میں بھیجے، ان میں ایران کے دو مصنوعی سیاروں کا شامل ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ ماسکو اور تہران کے مابین اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی اشتراک عمل کتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

خلا کی طرف روانگی روس کے ووستوشنی کوسموڈروم سے
روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کے مطابق ان ساڑھے چار درجن سے زائد اسپیس سیٹلائٹس کو لے کر ایک سویوس راکٹ مشرق بعید کے روسی خطے میں ووستوشنی کوسموڈروم سے خلا کی طرف روانہ ہوا۔

روسکوسموس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس سویوس راکٹ کے ذریعے جو 55 مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے گئے، ان میں سے 51 روسی سیٹلائٹس تھے، ایک روسی چینی سیٹلائٹ، ایک روس اور زمبابوے کی طرف سے مشترکہ طور پر خلا میں بھیجا جانے والا مصنوعی سیارہ اور دو ایسے ایرانی سیٹلائٹس جو نجی طور پر تیار کیے گئے تھے۔

ایران کا ایک اور سیٹلائٹ اب زمین کے مدار میں، سرکاری میڈیا

اس مشن کی زمین کے مدار کی طرف روانگی کے بعد روسکوسموس کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا، ”یہ پہلا موقع ہے کہ روس نے اسپیس سیٹلائٹس کی ایک ریکارڈ تعداد کو بیک وقت زمین کے مدار میں بھیجا ہے۔‘‘

ایرانی سیٹلائٹس کوثر اور ہدہد
روسی خلائی ادارے نے منگل کے روز جو دو ایرانی سیٹلائٹس زمین کے مدار میں بھیجے، ان کے نام کوثر اور ہدہد ہیں اور یہ دونوں خلا سے تصویریں لینے والے اور موصلاتی سیارے ہیں۔

کوثر اور ہدہد ایک نجی ایرانی ادارے امید فضا کمپنی نے ڈیزائن اور تیار کیے ہیں اور ان کا بنیادی کام دور دراز ایرانی علاقوں میں تحفظ ماحول کے لیے ارضیاتی مانیٹرنگ اور ٹیلی مواصلات کو بہتر بنانا ہے۔

پاکستان کا مواصلاتی سیٹلائٹ خلاء میں اپنے مدار کی طرف رواں

ان سیٹلائٹس کے بارے میں تہران میں ایرانی حکام کی طرف سے کہا گیا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ روس نے کوئی ایسے ایرانی مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے، جو نجی شعبے کے تیار کردہ ہیں۔

روس اور ایران کے باہمی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعلقات یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے آغاز اور مشرق وسطیٰ میں جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے مزید گہرے ہو چکے ہیں اور اس قربت پر مغربی دنیا میں تشویش بھی پائی جاتی ہے۔