پاکستان: حکومت متنازعہ قانون سازی سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

پاکستان میں حکومت کی جانب سے پیر کے روز ملکی مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کے لیے کی گئی قانون سازی کو بعض سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے انتہائی اجلت میں کیے گئے ‘تباہ کن‘ فیصلے قرار دیا جا رہا ہے۔

ممتاز سیاستدان فرحت اللہ بابر نے حالیہ قانون سازی کو مکمل تباہی قرار دیا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”مجھے شدید مایوسی ہوئی ہے، یہ بالکل صحیح فیصلہ نہیں ہے۔ سربراہوں کی طویل مدت کے باعث اداروں کے اندر جمود پیدا ہوتا ہے۔ مدت کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ ادارے میں جمود نہ ہو۔ یہ ادارے کے اندر تناؤ پیدا کرتا ہے۔

‘‘
’ملکی ادارے داؤ پر‘
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے زیادہ سے زیادہ اور طویل المدتی اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ طویل عرصے تک اقتدار برقرار رکھ سکے۔ حکومت کی جانب سے جو تین متنازعہ بل منظور کیے گئے ان میں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے۔

اس قانون سازی کے ذریعے آرمی چیف، ایئر چیف، اور نیول چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد جو پہلے 64 سال تھی، وہ بھی ختم کر دی گئی ہے۔

ایسے وقت میں جبکہ حکومت نے مسلح افواج کے تمام سربراہان کی مدت ملازمت بڑھائی ہے، کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ اس قانون سازی کا بنیادی مقصد چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر کو مزید مدت کے لیے اس اہم ترین عہدے پر برقرار رکھنا ہے۔

بظاہر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت آرمی چیف کی مدد سے اپنی حکمرانی کو دس سال تک برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور امکان ہے کہ انہیں مزید پانچ سال کی توسیع دی جائے گی۔

فوجی افسران کی ترقیاں متاثر
ناقدین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت بظاہر ایک جمہوری حکومت نہ صرف جمہوریت کے تانے بانے کو تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح افواج کے ادارے کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے تاکہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کو اقتدار سے دور رکھا جا سکے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ مکمل طور پر ایک سیاسی اقدام ہے جس کے ذریعے حکومت نے چیف آف آرمی اسٹاف کو دس سال تک برقرار رکھنے کی طاقت حاصل کر لی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آج ان کے پاس یہ طاقت ہے اور مستقبل میں یہی قانون سازی کسی اور کے کام آئے گی”۔

انہوں نے مزید کہا، ”اس قانون سازی کے ذریعے حکومت خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔

اسے فوجی مداخلت کی شکایت نہیں کرنی چاہیے جبکہ یہ خود فوجی ادارے کے سربراہ کو ملکی معاملات چلانے کا مزید اور لمبے عرصے تک کا کنٹرول دے رہی ہے۔ اس قانون سازی کے نتائج نہ صرف جمہوری نظام پر مرتب ہوں گے بلکہ مسلح افواج کے ادارے کے داخلی ڈھانچے کو بھی متاثر کریں گے۔‘‘
ریٹائرڈ جنرل لودھی نے بتایا کہ ایک آرمی آفیسر کو عام طور پر 52 سے 54 سال کی عمر میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے۔

قواعد کے مطابق ہر لیفٹیننٹ جنرل کو 57 سال کی عمر میں یا چار سال کی سروس’ دونوں میں سے جو بھی پہلے آئے، کے بعد ریٹائر ہونا ہوتا ہے ۔ آرمی میں اس وقت بائیس لیفٹیننٹ جنرل ہیں اور وہ یقینی طور پر اس سے متاثر ہوں گے۔
آرمی چیف پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور
نئے قانون کے تحت جب کسی ایک لیفٹیننٹ جنرل کو چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دیا جائے گا تو دیگر تمام لیفٹیننٹ جنرلز کو اس وقت تک ریٹائر ہونا پڑے گا جب انہیں اگلا آرمی چیف بننے کا موقع ملے۔

یہاں تک کہ کچھ میجر جنرلز جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے قریب ہیں، انہیں بھی ترقی سے پہلے ریٹائر ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ادارے کے داخلی قواعد میں بھی تبدیلیاں درکار ہوں گی۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اگر آرمی چیف کو پانچ سال کی توسیع دی جاتی ہے تو یہ اور بھی بڑا نقصان ہوگا۔ انہوں نےکہا،”یونیفارم میں ملبوس شخص اب پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی حکومت پر دباؤ ڈال سکے گا۔

‘‘
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ موجودہ سیاستدان اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ اقدام ان کے اپنے ہی خلاف بھی جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “ذرا تصور کریں کہ کسی ایسے ناپسندیدہ آرمی چیف کو ہٹانا کتنا مشکل ہو جائےگا، جس کے پاس پانچ سال کی سروس ہوگی۔ حکومت کسی طرح تین سال تو گزارا سکتی ہے لیکن پانچ سال کے لیے کسی ایسے شخص کے ساتھ ڈیل کرنا جسے آپ نہیں چاہتے، بہت مشکل ہوگا۔‘‘

تاہم حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور اہم قومی پالیسیوں میں تسلسل آنے کے سبب ملکی ادارے مظبوط ہوں گے۔